What Am I * * * * * * * میں کیا ہوں

میرا بنیادی مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے * * * * * * * * * * * * * * رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةِ مِّن لِّسَانِي يَفْقَھوا قَوْلِي

ایک جنرل کہتا ہے

Posted by افتخار اجمل بھوپال پر مئی 25, 2007

سابق کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر نے کہا کہ وفاقی حکومت گوادر کو اسلام آباد کا ایک سیکٹر بنانا چاہتی تھی جس کی انہوں نے مخالفت کی تھی اور ان کو استعفی دینے پر مجبور اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ نواب اکبر بگٹی سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کر رہے تھے ۔ جنرل عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں وفاقی حکو مت میں ایسی سمری پیش کی گئی تھی جس میں گوادر کو اسلام آباد کا ایک سیکٹر بنائے جانے کی تجویز تھی جس پر اس وقت کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے کابینہ میں بحث کرنے کا کہا تھا۔ جنرل (ر) عبدالقادر نے کہا کہ بلوچستان کے گورنر کے طور پر انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی جبکہ وزارت داخلہ کا مؤقف تھا کہ اس کے بغیرگوادر میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں کی جا سکتی جو غیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کے لیے چاہیے۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ گوادر کے حوالے سے قوم پرستوں کے خدشات دور کیے جا سکتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اس وقت کراچی کی طرح کوئی بڑی آبادی گوادر آنے والی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں بڑی صنعتکاری کی توقع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر در اصل فوجی ضروریات کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ پاکستان کو کراچی کے علاوہ ایک اور بندرگاہ کی ضرورت ہے جوگوادر بہتر طور پر پورا کر سکتا ہے۔ جنگ کی صورت میں گوادر بندرگاہ کا محاصرہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ کراچی بندرگاہ کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں فوجی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ستائیس اٹھائیس جولائی سال دو ہزار تین کو انہوں نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے اور مسئلہ سوئی گیس فیلڈ میں ایک سو دو ملازمین کو مستقل کرنے کا تھا جسے انہوں نے حل کر دیا اور وہ خوش تھے کہ صدر پرویز مشرف اس کامیابی پر خوش ہوں گے۔ لیکن ان کے بقول جب تین اگست کو وہ اسلام آباد پہنچے تو وہاں کوئی اور ان کا انتظار کر رہا تھا جس نے ان سے کہا کہ سوری ہم مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات میں جو دیگر لوگ شامل تھے شاید وہی پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے آگے کیا بتایا کہ انہیں بطور گورنر بلوچستان استعفی دینے پر مجبور کیاگیا ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اسی لیے تعینات کیا گیا تھا کہ بات چیت شروع کی جائے لیکن حکومت میں سخت گیر رویہ (ہاکش اٹیچیوڈ) رکھنے والے لوگ مذاکرات پر نہیں بلکہ ڈنڈے کا استعمال چاہتے تھے۔
اس کے بعد حالات بگڑتے گئے اور شازیہ خالد کیس اور گیس پائپ لائن پر حملوں کے بعد دو ہزار پانچ میں کارروائی شروع کی گئی ۔ جنرل عبدالقادر نے بتایا کہ ان کے دور میں نواب اکبر بگٹی اسلام آباد جانے کو تیار ہو گئے تھے اور سوئی ایئر پورٹ پر چار گھنٹے تک جہاز کا انتظار کرتے رہے لیکن جہاز نہیں آیا اور وہ واپس چلے گئے اور اس کو نواب اکبر بگٹی نے اپنی بے عزتی تصور کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی نے کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی اور اس کا اعتراف ان کے مخالف بھی کرتے ہیں۔

بلوچستان کو اس کے حقوق فراہم کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے کہ زمین کے اوپر اگنے والی اشیاء پر صوبوں کا کنٹرول ہو اور زمین کے نیچے پیدا ہونے والی اشیاء وفاق کے پاس ہوں۔ بلوچستان میں نہ تو نہریں ہیں اور نہ ہی دریا یہاں تو صرف پہاڑ اور پتھر ہیں۔ اگر یہی فارمولا ہی درست سمجھ لیا جائے تو اس کے تحت کنویں سے نکلنے والی گیس کی قیمت بلوچستان کو صفر اعشاریہ تین آٹھ ڈالر فی ہزار مکعب فٹ کے حساب سے ملتی ہے جو چھ ارب روپے بنتی ہے جبکہ پنجاب کو تین ڈالر فی ہزار مکعب فٹ کے حساب سے دی جاتی ہے۔ اگر پنجاب کو دی جانے والی قیمت ہی لگا دی جائے تو بلوچستان کو چالیس ارب روپے ملیں گے ۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن جاری ہے لیکن کسی نے بلوچستان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہاں مسئلہ کیا ہے ۔ ’اگر کوئی غدار ہے اور اس نے جرم کیا ہے تو اسے سزا دی جائے۔ یہ کیا کہ فوجیں بھیج کر آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے جس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور پھر وہ مرکز سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کا نوجوان باہر کی طرف دیکھ رہا ہے۔‘ انہوں نے تجویز دی کہ بلوچستان میں فوجی کارروائی بند کرکے مذاکرات شروع کیے جائیں اور لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کیا

8 Responses to “ایک جنرل کہتا ہے”

  1. اجنبی said

    عم افتخار صاحب، السلام علیکم،
    بہت اچھی تحریر ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔

    مجھے آپ کی مدد درکار ہے اُردو کیٹیگریز کے سلسلے میں ۔ میں کیسے اپنی کیٹیگریز اردو زبان میں رجسٹر کرواؤں ؟ اُمید ہے آپ مدد فرمائیں گے ۔

  2. umair said

    you are sounding like a news caster … a good one …

  3. اجمل said

    اجنبی صاحب
    شکریہ ۔
    مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی ۔ آپ کے بلاگ پر کٹیگریز تو اُردو ہی میں لکھی ہوئی ہیں ۔ ذرا وضاحت کیجئے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔

  4. اجمل said

    عمیر صاحب
    شکریہ ۔ عبارت کئی طریقوں سے لکھی جاتی ہے ۔ تقریر ۔ مکالمہ ۔ خود کلامی ۔ قرأت یا مطالعہ ۔ لَے دار مطالعہ ۔ وغیرہ ۔ یہ لُے دار مطالہ میں لکھی گئی عبارت ہے

  5. Wahaj/bsc said

    Jab manay daktery shuru ki thi to samajhta tha sirf dakter loge he ‘operation’ kertay hain.
    Next I heard of , "Operation Grand slam” (sean Connery’s "Goldfinger”). Of course I am a nieve ‘paindoo’ person.
    It really hurts to see what is being done to Blochistan though I am no fan of nawab Akber Bugti but he is a sincere voice.
    Did we not learn from East Pakistan?

  6. اجمل said

    بھائی وہاج احمد صاحب
    ہماری قوم ایک عجیب مخلوق ہے ۔ یہ دوسروں کے تجربہ سے سبق حاصل کرنے سے تو قاصر ہے ہی ۔ اپنے ماضی سے بھی سبق نہیں لیتی

  7. Roghani said

    Uncle ! I think Generals ‘always says right’ OR

    jaab Gernal kehta hay to teek he kehta hay Na!

  8. اجمل said

    روغانی صاحب
    پنجابی میں ایک کہاوت ہے
    چوہدری ٹھیک کہندائے

Leave a reply to Wahaj/bsc جواب منسوخ کریں