کہا "کُوچ کرو” اور کُوچ کر گئے
Posted by افتخار اجمل بھوپال پر اپریل 9, 2007
سولہ ماہ قبل میں نے جو لکھا تھا مشیّت نے مجھے اس میں ایک اضافہ کے ساتھ دوبارہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔
حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔
اور اب دوسرا گانے والا اسد امانت علی بھی چل بسا ۔ گویا وہ پوری طرح باپ کے نقشِ قدم پر چلا ۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب
جوگی کا ڈگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں
دیکھو توسہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوۓ
اس جھولی کو پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا
زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو
سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں
کیوں بن میں نہ جا بسرا ہم کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے
تو اور کرے دیوانہ کیا
صبا سید said
السلام و علیکم
یہ تو بڑا خطرناک اتفاق ہوا۔ آپ نے اسے حُسنِ اتفاق لکھ دیا۔
یہ نظم تو شاندار ہے ہی (میں نے سنی نہیں ہے) اور تبصرے بھی بہت اچھے کیے ہیں بلوگرز نے۔
فی امان اللہ
اجمل said
صبا سیّد صاحبہ
اسے حسِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے ۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اور غیب کا علم صرف اللہ کو ہے